برطانیہ میں ایک تازہ تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیائی خاندانوں کے افراد اپنی غذا اور جسمانی نقل و حرکت میں معمولی تبدیلی سے وزن کم کر سکتے ہیں اور اپنے لیے ذیابیطس سے بچنے کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں۔ایڈنبرا یونیورسٹی کی اس تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیائی افراد معمولی تبدیلیوں سے اپنی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔یہ مطالعہ ہسپتالوں کے بجائے لوگوں کے گھروں میں کیا گیا تھا جو کہ برطانیہ میں جنوبی ایشیائی یعنی پاکستانی اور بھارتی نژاد افراد پر اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے۔
یہ مطالعہ لانسٹ ڈائبیٹس اینڈ انڈوکرائنالوجی کے جریدے میں شائع ہوا ہے۔
محقیقین کا کہنا ہے کہ نسلی اور ثقاتی پس منظر کسی خاندان کے غذا اور ورزش کی طرف رویے پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔
قومی رہنما اصولوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیائی لوگ خاندانی زندگی اور مل بیٹھ کر کھانا کھانے پر بہت زور دیتے ہیں۔جنوبی ایشیائی افراد کو جوانی ہی میں موٹاپے کی
وجہ سے بیماریوں کا خطرہ ہوتا ہے۔
پاکستانی اور بھارتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مرد حضرات کو عام آبادی کے مقابلے میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
تین سال پر محیط اس تحقیق میں سکاٹ لینڈ میں رہائش پذیر پاکستانی اور بھارتی نژاد 171 افراد کا مطالعہ کیا گیا جنھیں پہلے ہی ذیابیطس کا خطرہ تھا۔
مطالعے میں شریک افراد کو غذا اور ورزش کے ذریعے وزن کو قابو کرنے کے لیے ماہرِ غذائیات نے تفصیلی مشورے دیے اور انھیں ان کی ثقافت کے لحاظ سے موزوں وسائل دیے گئے ۔
اسی دوران مطالعے میں شریک ان گروپوں کو ایسے مشورے بھی دیے گیے جو ان کے ثقافت کے لحاظ سے مخصوص نہیں تھے۔
اڈنبرا یونیورسٹی کے صحت اور آبادی کے سائنس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے پروفیسر راج بھوپال نے کہا کہ ’ان مختلف طریقوں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے ثقافت سے مطابقت رکھنے والے مشوروں سے لوگ وزن کم کر کے صحت کے بہت سے فائدے اٹھا سکتے ہیں۔‘